بہت سے سگریٹ نوش کہتے ہیں کہ وہ اسے ترک نہیں کرسکتے، اور دیگر کی شکایت ہے کہ ان میں اس کے لیے قوتِ ارادی موجود نہیں ہے، جبکہ بعض نے تسلیم کیا کہ وہ تماکو نوشی اس لیے کررہے ہیں کہ یہ فیشن میں شامل ہے۔سعودی عرب میں ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی محفلوں میں شیشہ اور سگریٹ جدید فیشن کے لوازمات میں شامل ہوگئے ہیں جہاں تمباکو نوشی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ نفسیاتی اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جو سماجی وقار کے لیے تمباکونوشی کرتی ہیں، اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں مہارت رکھنے والی ایک فلاحی تنظیم نقا کے ایک عہدے دار نے کہا کہ سعودی مردوں سے زیادہ خواتین شیشہ کا استعمال کرتی ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ تمباکو نوشی کرنے والی خواتین کی عمریں تیس سے چالیس برس کے درمیان ہیں۔ مزید یہ کہ شادی شدہ خواتین کی بڑی تعداد تمباکونوشی کے لیے شیشہ استعمال کرتی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ سعودی عرب کے مختلف خطوں میں یہ رجحان پھیل رہا ہے اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔انسدادِ تمباکو نوشی کی ایک تنظیم کے ترجمان سلیمان الصابی کہتے ہیں کہ سعودی خواتین میں تمباکو نوشی کی شرح میں 2014ءکی ابتداء سے اب تک 7فیصد تک کا اضافہ ہوا تھا۔ 2010ئ میں یہ شرح چار سے پانچ فیصد تک تھی۔مردوں میں تمباکو نوشی کی شرح 22 فیصد ہے، جس میں سے 27 فیصد تک اپنی عمر کے دسویں سال سے تمباکو نوشی شروع کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”تمباکو نوشی کرنے والی سعودی خواتین کا سب سے بڑا حصہ ریاض، جدہ اور الخبر جیسے شہری علاقوں میں مقیم ہے۔“سلیمان الصابی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں ایک دن کے دوران فی فرد 35 سگریٹ پیتا ہے، جبکہ سالانہ 55 ہزار 992 ٹن تمباکو اور مولیسس درآمد کیا جاتا ہے۔ تمباکو کے استعمال کے لحاظ سے سعودی عرب دنیا بھر میں 23ویں نمبر پر ہے۔ خلیجی ملکوں کے ریکارڈ کے مطابق تمباکونوشی کی وجہ سے ہر سال 30 ہزار ہزار افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔نقا کے چیئرمین محمد بن جبر الیمانی کہتے ہیں کہ زیادہ تر خواتین تمباکو نوشی کے لیے سگریٹ کے بجائے شیشہ کا استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ شیشہ ایک سماجی عادت بنتا جارہا ہے۔جبر الیمانی نے واضح کیاکہ بالغ تمباکونوش خواتین کی تعداد کے لحاظ سے فرانس، امریکا، اٹلی اور جنوبی افریقہ کے بعد سعودی عرب دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔جدہ میں کنگ فہد ہسپتال پر نفسیاتی شعبے کی سربراہ اور مختلف عادتوں میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے اقوامِ متحدہ کی بین الاقوامی ماہر ڈاکٹر مونا الصواف کا کہنا ہے کہ تمباکونوشی کا سماجی رجحان خواتین میں نیا نہیں ہے، لیکن اب یہ منظرعام پر آنا شروع ہوگیا ہے، اس لیے کہ خواتین کو عوامی مقامات پر تمباکونوشی کی اجازت دے دی گئی ہے۔انہوں نے کہا ”بہت سی خواتین تمباکو نوشی کو اپنی آزادی خیال کرتی ہیں، جو کہ مکمل طور پر غلط تصور ہے۔“ڈاکٹر مونا کہتی ہیں کہ عرب دنیا میں درست اور دستاویزی اعدادوشمار کی کمی کے باوجود عالماعدادوشمار اشارہ کرتے ہیں کہ تمباکو نوشی ایک لت کے طور پر پھیل رہی ہے۔
Post a Comment