اسلام آباد(نیوزڈیسک )منشیات کا سراغ لگانے کے لیے بوگیر کتوں سے کام لینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ کتے اپنی
غیرمعمولی حس شامہ کی بہ دولت مہارت سے چھپائی گئی منشیات کی بو بھی پالیتے ہیں۔
ماہرین اور سائنس داں انسان کے بہترین دوست کے کاندھوں پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے دیگر جانوروں پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جنوبی افریقا میں ہاتھیوں کو کام یابی سے تربیت دی جارہی ہے۔
حال ہی میں جرمنی کی کولون یونی ورسٹی کے محققین نے منشیات کی نشان دہی کے لیے شہد کی مکھیوں کو سدھا کر سائنس داں برادری کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی حیران کردیا ہے۔شہدکی مکھیاں انسان کے لیے شفا بخش مشروب تو تیار کرتی ہی ہیں مگر مستقبل قریب میں وہ انسان کی صحت اور جان کے دشمن، منشیات کے اسمگلروں کی بیخ کنی میں بھی اہم کردار ادا کرتی نظر آئیں گی۔کولون یونی ورسٹی کے محققین کے مطابق انھوں نے شہد کی مکھی کو ہیروئن اور کوکین میں فرق کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔
ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ مکھیاں ہوائی اڈوں پر بو گیر کتوں کی جگہ لینے کی اہل ہیں، اور انتہائی مہارت سے اپنے فرائض سر انجام دے سکتی ہیں۔شہد کی مکھیوں کو منشیات کی بو سونگھنے اور ان میں فرق کرنے کی تربیت کیسے دی گئی؟ اس بارے میں سائنس دانوں نے کچھ بتانے سے انکار کردیا، تاہم سسیکس یونی ورسٹی میں انفارمیٹکس کے پروفیسر تھامس نووٹنی کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی میں طاقت ور ریسیپٹر ( receptors ) ہوتے ہیں جو بارود اور منشیات کی بو محسوس کرسکتے ہیں۔
ماہرین شہد کی مکھی کو اس طرح تربیت دیتے ہیں کہ وہ منشیات اور بارود کی بو محسوس ہونے پر اپنی ننھی سی زبان باہر نکال لیتی ہے جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ مکھی جس چیز پر بیٹھ کر زبان باہر نکالے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس شے یا سامان میں منشیات یا بارود موجود ہے۔پروفیسر تھامس کے مطابق امریکی ماہرین کے ایک گروپ نے بھی تین مکھیوں کے گروپ کو بارود کی نشان دہی کرنے کی کام یاب تربیت دی تھی۔
بارود کے قریب پہنچ کر یہ مکھیاں اپنی زبانیں باہر نکال لیتی تھیں۔ ماہرین نے یہ مکھیاں امریکی فوج کو بہ طور ڈیوائس فروخت کرنے کی کوشش بھی کی تھی جو کام یاب نہ ہوسکی۔پروفیسر تھامس کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں انتہائی ذہین ہوتی ہیں۔ انھیں منشیات اور بارود کے علاوہ دوسری چیزیں شناخت کرنے کی تربیت بھی دی جاسکتی ہے۔
Post a Comment